Orhan

Add To collaction

غلط فہمیاں

غلط فہمیاں
از حورین 
قسط نمبر1

لندن 
کمرے میں خواب ناک خاموشی تھی جس میں اچانک الارم کی آواز نے شور پیدا کیا جس سے کچھ سیکنڈ بعد بیڈ پے لیٹے وجود میں جنبش ہوئی اور اس نے ہاتھ بڑھا کے سائیڈ ٹیبل سے الارم کو بند کیا ۔کچھ دیر بعد ہی دروازہ بجا 
کم ان کہنے کے بعد ایک آدمی جوس کا گلاس لئے کمرے میں داخل ہوا ۔اس نے گلاس اٹھا کے لبوں سے لگا لیا
ناصر ٹکٹ بک ہو گئی ؟۔اس نے پاس کھڑے آدمی سے سوال کیا 
جی صاحب بک ہو گئی ٹکٹ ۔ناصر نے بوکھلاتے ہوئے جواب دیا کیوں کے وہ اس کے غصّے سے واقف تھا اسے کب کس بات پے غصّہ آ جائے کوئی نہیں جانتا تھا  
کس ٹائم کی فلایٹ ہے؟ ۔اس نے گلاس ٹرے میں رکھتے ہوئے پوچھا 
شام پانچ بجے کی ۔اب کی بار ناصر نے آرام سے جواب دیا کیوں کہ اس کے چہرے کے تاثرات نارمل تھے 
ہوں ۔اس ھنکار بھری اور اسے جانے کا اشارہ کیا اور خود کسی گہری سوچ میں پڑ گیا 
بہت جلد میں تمہارے پاس ہونگا ابھی تمہیں یہ معلوم نہیں کہ  میں دھوکہ دینے والوں کا کیا حال کرتا ہوں just wait and watch 
اور تیار ہونے کے لئے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔جانے سے پہلے اسے کچھ ضروری کام نبٹانے تھے 
💞💞💞💞
 پاکستان 
 وہ سب لوگ اس وقت ڈاانینگ ٹیبل پے بیٹھنے تھے اور مریم بیگم سب کو ناشتہ سرف کر رہیں تھیں کے مرتضیٰ احمد نے سب کو بتایا کہ 
کشش کو دیکھنے شام کو کچھ لوگ آ رہے ہیں آپ سب تیاری کر لیجئے گا 
انکی بات سن کےعلینا اور حمزہ  نے معنی خیز نظروں سے کشش کی جانب دیکھا تو وہ سٹپٹا گئی اور سر جھکا کے ناشتہ کرنے لگی 
کون لوگ ہیں اور کیسے ہیں؟ مریم بیگم نے کرسی سنبھالتے ہوئے مرتضیٰ صاحب سے سوال کیا  
میرے بزنس پارٹنر کا بیٹا ہے اچھا لڑکا ہے ایک دو بار ملاقات ہوئی ہے سلجھا ہوا بچہ ہے۔مرتضیٰ صاحب  کشش کی جانب دیکھتے  ہوئے جواب دیا 
 ہمم اور کرتا کیا ہے ؟۔مریم بیگم نے حمزہ کو پانی کا جگ پکڑاتے ہوئے پوچھا 
پڑھائی مکمل ہو گئی ہے اس کی اور اب وہ بھی بزنس ہی کرے گا کچھ دنوں میں آفس جوائن کر رہا ہے ۔۔۔۔۔انھیں آج پھر اپنی بیٹی کی یاد ستانے لگی جو کچھ عرصہ پہلے ہی ان سے دور ہوئی تھی 
اوکے ماما اب ہم چلتے ہیں آپ اپنا خیال رکھئے گا ۔کشش نے اٹھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی حمزہ اور علینا بھی کھڑے ہو گئے 
اللّه حافظ ۔ان تینوں نے ایک ساتھ کہا اور ان سے پیار لے کے باہر کی جانب بڑھ گئے ۔اور مریم  بیگم مرتضیٰ صاحب سے مزید سوالات کرنے لگئیں اور کچھ دیر میں مرتضیٰ صاحب بھی آفس جانے کے لئے نکل گئے اور فاطمہ بیگم اپنے کاموں اور تیاریوں میں مصروف ہو گئیں 
💞💞💞💞
احمد علی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے ۔انہوں نے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنے والد کی طرح بزنس شروع کیا ۔اور کچھ ارسے بعد انکی والدہ نے اپنی پسند سے انکی شادی اپنی بھتیجی ملیحہ سے کر دی
شادی کے کچھ عرصے بعد وں ک والدین کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا 
خدا نے انھیں دو بیٹوں سے نوازا مرتضیٰ اور ارتضیٰ ۔ان دونوں بھائیوں میں ایک دوسرے کے لئے بہت محبّت تھی 
ملیحہ بیگم نے اپنے دونوں بیٹوں کی شادی اپنی پسند اور سب کی رضا مندی سے کی 
شادی کے دو سال بعدمرتضیٰ صاحب کے ہاں دو جڑواں بیٹیوں نے جنم لیا  ۔زرش اور کشش یہ دونوں بلکل ایک جیسی دکھنے میں تھیں فرق صرف ایک تل کا تھا کشش کے نچلے ہونے کے نیچے ایک ننھا سا تل تھا جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھاتا تھا ۔جب کے مزاج میں وہ دونوں قدرے مختلف تھیں کشش نرم مزاج اور شرمیلی سی لڑکی تھی جب کہ زرش  ضدی اور من مانی والی لڑکی تھی 
جب کے ارتضیٰ صاحب کو خدا نے شادی کے پانچ سال بعد بیٹے حمزہ اور پھر دو سال بعد بیٹی علینا سے نوازا  یہ دونو ں ہی بہت چنچل تھے ہنسنے ھنسانے والے 
اور پھر جب حمزہ سات سال اور علینا پانچ سال کی تھی تو ایک حادثے  میں وہ خالق حقیقی سے جا ملے اس کے بعد مرتضیٰ صاحب اور مریم بیگم نے ہی وں دونوں کی پرورش کی  
اور ایک سال پہلے بریک فیل ہونے کے وجہ سے زرش کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اس نے ضد  کر کے ہی خود ڈرائیونگ سیکھی تھی ۔جیسی بھی تھی انکی بیٹی تھی سب ہی اسے کافی یاد کرتے تھے
💞💞💞💞
گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں تھی وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکاے بیٹھا تھا 
ایئر پورٹ پہنچ کے ڈرائیور نے گاڑی روکی اور اتر کے اسکی طرف کا دروازہ کھولا ۔وہ باہر نکلا اور اسے سامان نکالنے کا اشارہ کیا اور اپنے قدم اندر کی طرف بڑھا دئے ڈرائیور بھی جلدی سے اسکا سامان نکال کے اسکے پیچھے جانے لگا گیٹ پے پہنچ کے اس نے سامان کی ٹرولی اس سے لی اور اگے بڑھ گیا 
جہاز ٹیک اوف ہو چکا تھا ۔وہ پنے موبائل میں اپنے مینیجر کو ضروری ہدایات دے رہا تھا موبائل رکھ کے وہ ایک بار پھر ماضی کے بارے میں سوچنے لگا ۔
 اور اس کے چہرے پے سخت تاثر آے اور آنکھیں غصّے اور ضبط سے لال ہو گئیں 
بہت جلد تمہیں سزا ملے گی۔ تم صحیح جانتی نہیں ابھی زارون علی کو ۔پیسوں کی خاطر تم نے مجھے دھوکہ دیا نہ اب دیکھنا تمہاری زندگی جہنم سے بھی بد تر ہوگی ۔یہ سوچ کے اس نے سیٹ پشت سے سر ٹکا کے آنکھیں موند لیں

   1
0 Comments